Junaid’s Article

آرزو اور صفت تغیر

تمام ڈا کٹر ز ، نر سیں اور گھر والے اس کے پاس دائرے کی ماند کھڑے اس کی آواز کو سن کر سوچوں کے ایک طویل سفر میں گم تھے . ان تمام کی وجہ سوچ اس کے یہ حسرت بھرے الفاظ تھے .

” ہائے کاش ! ہائے کاش !  … ہائے کاش ! ”

تو عین اسی پل ان میں سے ایک نے کہا کہ ‘ آے خدا کے بندے تو تو زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے اور کوئی پتہ نہیں کچھ لمحوں بعد تو اس دنیا میں نا ہو . تمہیں تو استغفار کرنا  چاہئیے  اور الله کے حضور معافی مانگنی چاہئیے تاکہ تمہاری روح آسانی سے پرواز کر سکے ‘ . اور ”  ہائے کاش !…ہائے کاش !  ”  کرنے کی کیا وجہ ہے ؟

تو اس نے کہا :

” نہیں آج مجھے کوئی نہ روکے اپنی حسرتوں اور خواہشوں کے ملال پہ رونے کےلئے … مجھے کوئی نا روکے ! ”

لیکن ان سب کے اسرار پر اس نے بتایا کہ :

جب میں پیدا ہوا تھا تو میری ماں نے مجھے گود میں لے کر حسرت بھری نگاہ سے دیکھ کر کہا تھا کہ ” میرا بیٹا بڑا ہو کر دنیا کو تبدیل کرے گا ! ”

وقت کا پہیہ بہت تیزی سے گھومتا رہا اور میں بڑا ہوتا گیا تو کچھ عرصے بعد میں اسکول جانے لگا . اور اچانک ایک دن  دنیا کا گول چھوٹا سا نقشہ دیکھا تو میں نے ایک سرد آہ بھری اور اپنے آپ سے یہ تہیہ کیا کہ میں اس دنیا کو ضرور تبدیل کروں گا .

چنانچہ وقت گزرتا گیا اور میں اپنے بچپن سے لڑکپن کی دہلیز پر پہچ گیا اور ہوا کچھ یوں کہ میں نے اپنی کتاب میں بڑا سا دنیا  کا نقشہ دیکھا اور ساتھ ہی کچھ صفحات بعد پاکستان کا نقشہ میری زیر نظر تھا .

تو ٹھیک اسی لمحے  میں نے اپنا فیصلہ تبدیل  کہ یار… دنیا تو بہت بڑی ہے میں اسے تبدیل نہیں کر سکتا میں اپنے ملک پاکستان کو ضرور تبدیل کروں گا .

یہ فیصلہ کرنے بعد میں نے  کتاب بند کی اور اپنے روز مرہ کے معمولات زندگی میں مصروف ہو گیا . دو سال بعد میں میٹرک  میں پہنچ گیا اور مجھے محسوس ہوا کہ پاکستان تو کافی بڑا ہے اسے تبدیل کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے میں اب کی بار صرف ایک صوبے ( پنجاب ) کو تبدیل کروں گا . میں جناب گہری سوچوں کے سمندر میں اسی سوچ کے ساتھ کہ پنجاب کو کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے غوطہ زن ہو گیا .  پانی اپنی رفتار کے ساتھ بہہ ہی رہا تھا کہ اچانک میں  تودے سے ٹکرایا اور مجھے ٹھوکر لگی تو میں چونک کے  ان سوچوں کے سمندر سے نمودار ہوا  تو جناب چار سال کا  ایک طویل عرصہ بیت چکا تھا اور میں نے بیچلر کی ڈگری مکمل کر لی تھی ،  اسی دوران میں نا پنجاب کو تبدیل کر سکا اور نا ہی شہر کی رونق کو نکھار سکا . تو مجھے انکشاف ہوا کہ یہ میری فرصت اور بس سے باہر ہے اسے صرف خادم اعلیٰ ہی تبدیل کر سکتا ہے .

پھر میں نے فیصلے کو پلٹا اور اپنے گھر کو تبدیل کرنے کے چکر میں ہر وقت گھروالوں سے بحث کر تا رہتا تھا . گھر والوں کو ادراک ہوا کہ یہ کچھ زیادہ ہی دماغ سے پھر گیا تو انہوں نے میری شادی کرادی   . اور دلہن کو دیکھتے ہی مرے دل میں ایک خیال نے انگڑیاں لیتے ہوئے جنم لیا کہ دیکھ پگلے ” اور تو تو کچھ کر نہیں سکا ا اپنی  بیوی کو تو ضرور تبدیل کر سکتا ہے ” اسی سوچ کے ساتھ میں  نے  پہلی رات ایسے ہی باتوں باتوں میں گزار دی اور پھر ہوا کچھ یوں  کہ  دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے اور مجھے میری اولاد کی نوید سنائی گئی .  میں نے اس بار پختہ وعدہ کیا کہ یار بیوی تو اب میری مانتی نہیں اس بچے کو لازمی تبدیل کروں گا . بچہ بڑا ہو گیا … پھر دوسرا بچہ . دوسرے سے تیسرا بچہ بھی جوان ہو گیا لیکن میری سوچ کا نتیجہ صفر نکلا .

زندگی کے لمبے عرصے بعد موت مجھے اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور میں کسی کو بھی تبدیل نہ کر سکا .  ہر وقت میرے اندر کچھ کر گزرنے کی ، کچھ ترقی کی انتہا تک پہچنے کی ، بے حس دنیا ، خود غرضی کی دلدل میں پھنسی دنیا کو نکالنے کی خواہشیں تو بڑے زوروشور سے ابھر کر جنم لیتی رہیں ، لیکن پیدا نا ہو سکی تو صرف اور صرف ایک آرزو پیدا نا ہو سکی .

ہائے کاش ! … یہ خواہش جنم لے لیتی !

اب کی بار اسے سانس کا جھٹکا لگا ، اور لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں دوبارہ ہائے کاش !  کے الفاظ کو دہرایا  اورساتھ ہی کھڑے گھروالوں نے پوچھا وہ کونسی خواہش تھی ؟  آ پ ہمیں بتا دیجئے ہم ضرور پوری کر دیں گے .

اس  نے اپنے ادھ مؤے جسم کو حرکت دی اور گردن کو موڑ کر ان لوگوں کو بے بسی کے بستر میں پڑے ہوۓ کچھ کہنے کی کوشش کی تو بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی قطار امڈ ائی …

اس دفعہ اس نے ایک لمبی ہائے…نکالی اور پھر بولا :

” نہیں میری خواہش کوئی پوری نہیں کر سکتا ، نا آپ سب لوگ ، نا میرے عزیز ، نا دولت ، اور نا ہی دنیا کی کوئی اور طاقت اور  اب میری اس خواہش کو پوری کر سکتا ہے”  .

اسی لمحے اس نے بتایا کہ میں صرف اور صرف “خود کو تبدیل نہیں کر سکا ! ” میں دنیا کو بدلنے کے سپنے تو دیکھتا رہا لکن خود کو ذرا بھی تبدیل کرنے کا گمان نہیں کیا .  کیونکہ ہر تبدیلی کی وجہ مجھ سے شروع ہونی تھی ، جب تک ابتدا کو ٹھیک نہ کرتا تو انتہا ٹھیک کیسے ہو سکتی تھی ؟ میں بنیاد کو ٹھیک نا کر سکا اسی وجہ سے میں جو بھی بڑی خواہش اور آرزو کرتا وہ بلندی سے ایسے گرتی جیسے کسی نے بہت ہی بلند عمارت سے بھاری کسی چیز کو زورسے نیچے پھینکتا ہے . وہ بنیاد میری ذات تھی . مجھے ساری زندگی یہ پتہ ہی نہ چل سکا کہ ” میں کون ہوں ؟ ”

اس نے خود پر جلتے ہوۓ کہا کہ میں دنیا کو ، دنیا کی بڑی بڑی چیزوں کو ٹھیک کرنے نکلا تھا لیکن افسوس کہ میں اپنے اندر چھوٹی چھوٹی چیزوں کو تبدیل نہ کر سکا . میں بڑا آدمی بن کر لوگوں کی مدد کرنا چاہتا تھا لیکن کبھی چھوٹا آدمی بن کر کسی بے سہارا کا سہارا نہیں بن سکا … کسی کی امید کا تارا نہیں بن سکا …

اب جب مجھے پتا چل چکا ہے کہ دوسروں کو تبدیل کرنے کے لیے ، دنیا تبدیل کرنے کیلئے اور چیزوں کو ٹھیک کرنے کیلئے پہلے خود کو بدلنا پڑتا ہے ، تو اب میں یہ بھی نہیں کر سکتا کیونکہ میں زندگی کا اتنا سفر طے کر چکا ہوں کہ پیچھے مڑنا مرے لیے نا ممکن ہے اور جب میں زندگی کا  آخری موڑ موڑوں گا تو میرے سامنے ایک ایسا جہان ہو گا جس میں میرا کوئی بس نہیں چلے گا ، اپنے کیے کی سزا و جزا جھیلوں گا اور جب میں اپنی ماں کے سامنے ظاہر ہوؤں گا تو میری ماں پھر  مجھے حسرت بھری نگاہ سے دیکھے گی اور پوچھے گی کہ  ” میرا بیٹا دنیا کو تبدیل کر آیا ہے ؟ ”  تو اس وقت میرا سر شرم سے جھک جائے گا اور میں دل ہی دل میں کہوں گا کہ دنیا کو تبدیل کرنے سے پہلے خود کو بدلنا پڑتا ہے اور وہ میں نہیں کر سکا .

اس بار اسے ہچکی کی طرح ایک اور جھٹکا لگا اور اسنے کہا .   ” خدارا پہلے خود کو بدلنا  بعد میں کسی اور کو ”  اور ساتھ ہی کلمہ پڑھا اور دوسرے عالم ارواح میں محو سفر ہو گیا .

تو قارئین !  یہاں بہت ہی گہری اور دلچسپ بات ہے کہ ہم ہر وقت کسی نہ کسی ادارے ، محکمے ، شعبہ جات ، حالات ، واقعات ، احتسابات ، جاہلی اور بیروزگاری کے سوالات اور نہ جانے کیا کیا اور کیسی کیسی چیزوں کا رونا دھونا لگاۓ رہتے ہیں . لیکن مجال ہم نے کبھی بھی کوئی ایسا کام یا عمل کیا ہو جس سے ہماری ذات ،   اور ہمارا ضمیر مطمئن ہوا ہو .  اور ہم یہ فخر سے کہہ سکیں کہ ہاں صاحب ہم نے ایک بلکل چھوٹا سا  ،  خلوص نیت کے ساتھ کام کیا ہے جس سے ہمارے معاشرے ،  یا ہماری ذات کی بہتری ،  یا ہمارے اردگرد کا ماحول ،  یا ہماری وجہ سے کسی دوسرے  دکھ سے سہمے ہوۓ ، کسی ٹوٹے ہوۓ بندے کے چہرے پر ایک تبدیلی واقع ہوئی ہے .  ہمارے ماحول میں ایک نئی چہک سی جاگ اٹھی ہے ،  یا میری وجہ سے آج کسی کو ایک دلی سکون اور خوشی ملی ہے .

تو جناب اگر آپ نے ایسا کیا ہے تو ضرور آپ کے اندر ایک ایسی شخصیت موجود ہے جو یقیناً تبدیلی لا سکتی ہے وہ چاہے کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو تبدیلی ضررو ہو گی .

قارئین ! میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ :

اصل خوشی کیا ہوتی ہے ؟ یا یوں سمجھ لیں کہ حقیقی مسرت ، دلی سکون اور قلبی اطمینان کیسے کہتے ہیں ؟ کیا ہوتا ہے ؟ اور ہم اسے کیسے حاصل کر سکتے ہیں ؟

محترم قارئین ! میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ آگے پڑھنے سے پہلے آپ یہیں رک جائیں اور اپنی آنکھیں بند کر کے ، دو تین لمبے سانس لیں اور سوال پر غور کریں اور اس کے بعد کوئی ایسا کارنامہ ، قؤ ل ، فعل ، یا عمل کو ذہن میں دہرائیں اور غور کریں   یقیناً  جواب اسی میں ہو گا .

جہاں تک مجھ بندہ نا چیز کو پتہ ہے ، تجربہ ہے اور پڑھا بھی ہے ، اصل خوشی ، قلبی سکون و راحت اسے کہتے ہیں کہ آپ کی خوشی کی وجہ دوسروں کی خوشی ہو .  مطلب آپ کی وجہ سے کسی دوسرے کو خوشی ہو  ، مسکراہٹ ہو ،  یا دوسرے کا سکون ہو ،  اور پھر آپ جب جب اس کو دیکھیں ،  اس چیز کو ،  قؤ ل ، فعل ،  یا عمل کو دیکھیں تو آپ کے چہرے پر خوشی اور مطمئن کی لہر نمودار ہو جاۓ تو سمجھ لیں اسے اصل خوشی کہتے ہیں ،  اسے دلی راحت ،  مسرت اور سکون کہتے ہیں ،

میرے قابل احترام قارئین ! آپ سے میری نہایت ہی  عاجزانہ گزارش ہے کہ دوسروں کی خامیاں ، کسی محکمے کی کمیاں اور کوتاہیوں کو اچھالنے کی بجاے اس کی خوبیوں اور اس میں موجود اچھا یوں کو تلاش کریں اور اسکی تعریف کریں اور اگر کسی  خامی کا پتا چل بھی جاۓ تو اسے اپنی ذات تک محدود رکھیں غیروں میں اسے تذلیل نہ کریں ،  اور اس کا صلہ ضرور ملے گا یہاں نہیں تو اگلا جہان تو باقی ہے .

خود کو تبدیل کریں اردگرد کی ہر چیزیں تبدیل ہونا شروع ہو جائیں گی .

واسلام

دعا گو

جنید احمد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Protected by WP Anti Spam